محبت کا آخری سفر
محبت کا آخری سفر از پری وش تالپور قسط نمبر7
"ایک شادی شدہ دو بچوں کے باپ سے جس کی بیوی ایک سال پہلے بچے کو پیدا کر کے چل بسی ، کیسے فیصلہ کرتی وہ ایک الجھن میں پھنسا دیا تھا پرنپسل حاجرہ نے ، اگر میں میڈم کو منع کر دوں تو ایسا کون ہے جو مجھے بیاہنے آئے گا، ماموں نے اپنے بیٹے کی شادی کردی جو مجھ سے دس سال سے منسوب تھا ، کوئی اپنا مجھے سہارا تو دور دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا ، ایک مرد نے مجھے اکیلا سمجھ کر میرے دل سے کھیل گیا اگر کوئی دوسرا میری عزت کے درپے آجائے گا تو کون ہے ایسا جس کو میں بولوں گی ، پھر میں کیا کروں کہا جاوں، سچ کہا ہے کسی نے یے دنیا اکیلی عورت کو دیکھ کر ہر طرح سے ناگ کی طرح کاٹنے لگتی ہے ، میڈم کی بات مان لوں مگر وہ شخص جو پہلے سے شادی کر چکا ہو وہ اپنی پہلی بیوی کو بھول پائے گا، مجھے اس کی جگہ دے پائے گا کیا میں اب بچے پیدا کرنے سے پہلے بچوں کی ماں اف اللہ کیا کروں" "عائشہ کا سوچتے سوچتے سر پھٹا جا رہا تھا ایک طرف کھائی تھی دوسری طرف کنواں " "میں نے کبھی نہیں سوچا تھا میری زندگی میں ایسا بھی ہوگا خواب تو ٹوٹے گے مگر ساتھ میں سارے ارمان خواہشیں کچھ باقی نہیں رہے گا ، کبھی معاف نہیں کروں گی میں تمہیں آریان خدا کرے تم بھی برباد ہوجاو میری طرح میری ساتھ کھیلنے کی سزا تمہیں عمر بھر یاد رہے" "وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی یوں ہی روتے روتے سوگئی" "صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی تھی اس نے جلدی سے ناشتہ بناکر کھایا تیار ہوکر نقاب کرنے ہی والی تھی جب دروازے پر بیل ہوئی، اس نے دروازہ کھولا تو جیسے جھٹکا لگا، آریان کو سامنے دیکھ کر اس کی آنکھیں مزید کھل گئیں اس کے پیچھے دو لوگ اور بھی تھے" "اسلام اعلیکم کیسی ہو عائشہ" "آریان مسکراتے ہوئے گرمجوشی سے آگے آیا" "ارے اب کیا یہی کھڑے رہنے کا ارادہ ہے میرے مام ڈیڈ کو اندر نہیں آنے دو گی کیا" "اس نے حیرانی اور پریشانی سے پہلے آریان کے چہرے کو دیکھا جو خوشی سے دمک رہا تھا، پھر اس کے مام ڈیڈ کو جو بڑی مشکل سے جبر کیے کھڑے تھے، ان کے چہرے سے یہی لگ رہا تھا کہ ان دونوں کو یہاں زبردستی لایا گیا ہے" "عائشہ" " آریان نے آواز دی " "عائشہ خاموشی سے سامنے سے ہٹ گئی " "آریان نے اپنے مام ڈیڈ کو صوفے پر بٹھایا اور خود دوسرے صوفے پر جاکر بیٹھ گیا اور اسے آنکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ بھی اس کے پاس آکر بیٹھے، اس کی شرارتی آنکھیں عائشہ کو سمجھ نہ آیا آخر اب وہ اس کے پاس کیوں آیا ہے اور وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ عائشہ اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھنے کے بجائے سامنے رکھی چیئر پر بیٹھ گئی اور بڑے اعتماد سے بولی " "کیا میں جان سکتی ہوں میرے گھر پر تشریف لانے کا مقصد" "اس نے اپنی بات کہہ کر اس کے چہرے پر نظریں جمادیں " "تمہیں اپنا بنانے آیا ہوں ہمیشہ کے لیے " "اس نے بڑے آسانی سے کہا اور عائشہ جیسے کرنٹ کھاکر کھڑی ہوگئی " "میں اتنی پاگل نہیں ہوں ڈاکٹر آریان کے تمہاری ہر باتوں سے بے وقوف بن جاوں سمجھ کیا رکھا ہے مجھے " "وہ جیسے پھٹ پڑی"